ماں کی
ممتا ہے اک ابتدا، آگے جانے کیا ہوگا
اسکی گود ہے دنیا میری، کھانا پینا اسی میں سونا
پر میں ہر پل بس یہ سوچوں، کب میں اس سے نکلوں گا
بھاگوں کودوں ناچوں گاؤں، ہر اک مستی کرونگا
اب سب کر کے، جو دل چاہا، میں نے آج وہ پایا
پیچھے مڑ کر پر جب دیکھا، جانے کیوں مجھے رونا آیا
ترسوں میں اسکی ممتا کو، جسکی اب نہیں چھایا
کیوں میں اس سے نکلا، کیوں میں اس سے بھاگ کےآیا
کاش وہ دن پھر آ جاتا، ماں ہوتی اور میں ہوتا
آنکھیں کھولتا اسکو دیکھتا، اسی کی گود میں ہر پل سوتا
سوچتا ہوں بھول کر رونا، اب میں سیکھ لوں ایسے ہی جینا
کچھ دن ہنس لوں کچھ دن جی لوں، کیوں نہ میں اب بچے پالوں
جیتا ہوں مرتا ہوں، اب میں ہر پل محنت کرتا ہوں
ہمت ہے اب پھر سے جواں، مقصد ہے بچوں کی خوشیاں
ان بچوں میں ہے جان میری میں ان سے اتنا پیار کروں
اک پل ان پر دھوپ نہ آے، انکی تکلیف مجھے ستاۓ
پہلا سبق جو نہ سیکھا تھا، اب سوچوں انکو سکھلا دوں
غم سی انکو دور رکھوں، اپنی گود میں انکو سدا دوں
جتنا بھی میں انکو سمجھا لوں، انکی عقل نہیں نرالی
کچھ نہ سوچیں کچھ نہ سمجھیں جس سے روکوں وہ یہ چاہیں
پھر کچھ ایسا ہوتا جاۓ، جیسے وقت سب دوہراے
جانے نہ قدر میری بات بات پر مجھے ٹھکراۓ
کوئی یہ انہیں سمجھاے، مستقبل سب کچھ لےآے گا
پر جو آج ہے پاس کھو دیا تو لوٹ کر نہ آے گا
پھر بھی مرتے دم تک میں نے بس یہ سوچا بس یہ چاہا
آنچ نہ آے ان پر کوئی، ہر دن انکا نی خوشی لاۓ
اب وقت آخر آیاہے، سوچوں نے مجھے جگایا ہے
دل پر دستک ہوتی ہے، یادوں نے گھیرا لگایا ہے
تنہائی ہے، سایا ہے، سب کچھ کھو کر کیا پایا ہے
پل پل دھڑکن گنتا ہوں، دل ہی دل میں روتا ہوں
کون یہ جانے اب میں کس کو پہلے بھولوں گا
جس گود کو میں نے کھویا تھا، یا جسنے میری گود کو ٹھکرایا
اسکی گود ہے دنیا میری، کھانا پینا اسی میں سونا
پر میں ہر پل بس یہ سوچوں، کب میں اس سے نکلوں گا
بھاگوں کودوں ناچوں گاؤں، ہر اک مستی کرونگا
اب سب کر کے، جو دل چاہا، میں نے آج وہ پایا
پیچھے مڑ کر پر جب دیکھا، جانے کیوں مجھے رونا آیا
ترسوں میں اسکی ممتا کو، جسکی اب نہیں چھایا
کیوں میں اس سے نکلا، کیوں میں اس سے بھاگ کےآیا
کاش وہ دن پھر آ جاتا، ماں ہوتی اور میں ہوتا
آنکھیں کھولتا اسکو دیکھتا، اسی کی گود میں ہر پل سوتا
سوچتا ہوں بھول کر رونا، اب میں سیکھ لوں ایسے ہی جینا
کچھ دن ہنس لوں کچھ دن جی لوں، کیوں نہ میں اب بچے پالوں
جیتا ہوں مرتا ہوں، اب میں ہر پل محنت کرتا ہوں
ہمت ہے اب پھر سے جواں، مقصد ہے بچوں کی خوشیاں
ان بچوں میں ہے جان میری میں ان سے اتنا پیار کروں
اک پل ان پر دھوپ نہ آے، انکی تکلیف مجھے ستاۓ
پہلا سبق جو نہ سیکھا تھا، اب سوچوں انکو سکھلا دوں
غم سی انکو دور رکھوں، اپنی گود میں انکو سدا دوں
جتنا بھی میں انکو سمجھا لوں، انکی عقل نہیں نرالی
کچھ نہ سوچیں کچھ نہ سمجھیں جس سے روکوں وہ یہ چاہیں
پھر کچھ ایسا ہوتا جاۓ، جیسے وقت سب دوہراے
جانے نہ قدر میری بات بات پر مجھے ٹھکراۓ
کوئی یہ انہیں سمجھاے، مستقبل سب کچھ لےآے گا
پر جو آج ہے پاس کھو دیا تو لوٹ کر نہ آے گا
پھر بھی مرتے دم تک میں نے بس یہ سوچا بس یہ چاہا
آنچ نہ آے ان پر کوئی، ہر دن انکا نی خوشی لاۓ
اب وقت آخر آیاہے، سوچوں نے مجھے جگایا ہے
دل پر دستک ہوتی ہے، یادوں نے گھیرا لگایا ہے
تنہائی ہے، سایا ہے، سب کچھ کھو کر کیا پایا ہے
پل پل دھڑکن گنتا ہوں، دل ہی دل میں روتا ہوں
کون یہ جانے اب میں کس کو پہلے بھولوں گا
جس گود کو میں نے کھویا تھا، یا جسنے میری گود کو ٹھکرایا